Estb. 1882

University of the Punjab

News Archives

Press Release

‎‎شعور وآگہی کی آواز کاسننا معاشرے پر لازم ہے - شعبۂ فلسفہ میں پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب ”مصر:خواب اور تعبیر “ کی تقریب سے مقررین کا خطاب

‎‎شعور وآگہی کی آواز کاسننا معاشرے پر لازم ہے - شعبۂ فلسفہ میں پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب ”مصر:خواب اور تعبیر “ کی تقریب سے مقررین کا خطاب


لاہور(پ۔ر)جس طرح ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے مصر میں اردو اور پاکستان چئیر کے مسند نشین کی حیثیت سے عالم عرب بالخصوص اہل مصر تک اپنی بات پہنچائی ،وہ اسی سچائی اور خلوص کے ساتھ پچھلے تیس برس سے ہم تک بھی شعور و آگہی کاپیغام پہنچا رہے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم ڈاکٹر صاحب کی آواز سنیں ، ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں اور ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔یہ بات پاکستان میں فلسفہ کے سینیر ترین استاد اور پنجاب یونی ورسٹی کے سابق صدرشعبہ فلسفہ پروفیسر ڈاکٹر ابصار احمد نے کتاب ”مصر:خواب اور تعبیر “ کی تقریب اجرا سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہی ۔پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ نے معروف اسکالر اور ڈائریکٹر ادارۂ تالیف و ترجمہ جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے سفرنامے ”مصر:خواب اور تعبیر “ کے اجراکے لیے 6 جون 2023 بروز منگل کو شان دار تعارفی تقریب کا انعقاد کیا ۔اس تقریب میں شعبۂ فلسفہ،شعبہ فارسی ،شعبہ اردو ،سکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز اور یونیورسٹی کے دیگر شعبوں کے اساتذہ اورطلبہ و طالبات نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز شعبہ اردوکے ایم فل اسکالرحافظ شعیب سلیمان کی تلاوت کلام پاک سے ہوا،تلاوت کے بعد پرسوز آواز میں جشن عباس نے سرور دو عالم کی جناب میں نذرانہ عقیدت و محبت پیش کیا۔تقریب کی میزبانی کے فرائض ادارۂ تالیف و ترجمہ کے ریسرچ اسکالر مشاہد حسین ہاشمی نے انجام دیے۔
کتاب پر گفتگو اور تبصروں کا آغاز ایم۔فل شعبۂ فلسفہ کی اسکالرز کے مقالوں سے ہوا۔شعبۂ فلسفہ میں ایم فل اسکالرز سیرت فاطمہ ،خولہ بسالت اور رتاب عرفان بٹ نے ”مصر:خواب اور تعبیر “ پر فکر انگیز مقالات پیش کیے جن میں سفرنامہ نگار کے زمانہ قیام مصر کے تجربات، علمی کارناموں اور نظریہ پاکستان کی ترویج و اشاعت اور اردو زبان و ادب کے لیے کی گئی کوششوں کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔
جامعہ الازہرقاہرہ ،مصر کےعثمان عبدالناصر خصوصی طور پر تقریب میں شرکت کے لیے شعبۂ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی تشریف لائے۔ انھوں نے ڈاکٹر زاہد کی مصر اور اہل مصر کے لیے خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمیں مصر میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر ایسا استاد میسر آیا۔ان کے اس جملے پر حاضرین نے صاحب کتاب کے لیے دل کھول کر تالیاں بجائیں جو کافی دیر تک گونجتی رہیں۔عثمان عبدالناصر کے بعد کالم نگار،شاعر اور ادیب آغر ندیم سحر نے "مصر :خواب اور تعبیر “ پر پر مغز مضمون پیش کرتے ہوئے مصر میں پاکستان چیرپرڈاکٹرزاہدمنیرعامرکی خدمات کولمحہ موجودتک دنیابھرکی تمام پاکستان چیرزپرفائزاصحاب کے کاموں پر فائق قراردیا ۔
گورنمنٹ چونامنڈی کالج برائے خواتین کی استاذ پروفیسر روزینہ سعیدنے مصرخواب اور تعبیرسے اقتباسات سناکر حاضرین سے دادوصول کی انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کی جامعات میں قایم درجن بھر پاکستان اور اردو چئیرز پر اساتذہ کے عدم تقرر پر نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک قومی المیہ قرار دیا۔
شعبۂ فارسی پنجاب یونیورسٹی کی استادذہ ڈاکٹر عظمیٰ زریں نازیہ نے اپنی گفتگو میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے علمی کمالات اور تبحر علم کی خاص طور پر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیاجاسکتاہے انھوں نے اس سلسلے میں ایران کے مشہور عالم ڈاکٹرمحمدمہدی ناصح کی جانب سے ڈاکٹر زاہدمنیرعامرکی علمیت کے اعتراف کا بطورخاص ذکرکیاجنھوں نے ڈاکٹرصاحب جیسے استاد کی قدرکرنے کی ضرورت پرزوردیااور نظم اور نثرمیں ڈاکٹرزاہدمنیرعامرکی خدمات کااعتراف کیاہے ۔ڈاکٹرعظمیٰ نے ڈاکٹرزاہدمنیرعامرکو منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا۔
ڈاکٹراشفاق احمدورک اور جناب سعودعثمانی تقریب کے مہمانان خصوصی تھے۔ اردو مزاح نگاری کی ایک نمایاں شخصیت ڈاکٹراشفاق احمدورک نے ”مصر پر مُصر،زاہد منیر عامر “ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر اشفاق ورک نے اپنی تحریر میں شگفتگی اور مزاح کے پیرائے میں ڈاکٹر صاحب کی مصر کے لیے خدمات اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہاکہ ڈاکٹرزاہدمنیرعامراور ان کا خانوادہ اردودنیامیں ایک نیا ''مصراب ''تعمیرکرنے میں مصروف ہے۔معروف شاعر ،کالم نگاراور دانشورجناب سعود عثمانی نے کتاب، اس کے مشمولات اور بیان کردہ تاریخی حقائق پر مفصل گفتگو کی۔ان کا کہنا تھا کہ کسی دوسرے ملک کے سفر کے دوران میں سفرنامہ نگار کا قیام مختصر ہوتا ہے ۔آپ اس کی تہذیب و تاریخ کے باطن میں نہیں اتر سکتے مگر ڈاکٹر زاہد منیر عامر ایک طویل عرصے تک وہاں مقیم رہے انھوں نے صرف مصرکو دیکھاہی نہیں اس کی تاریخ پرتحقیق بھی ہے اور معروف باتوں کے بارے میں شکوک و شبہات کاا ظہاربھی کیاہے ۔وہ مصرکے باطن میں اترکریہ کتاب ہمارے سامنے لائے ہیں وہ اس لیے انھوں نے بعض صورتوں میں مصرکو اہل مصر سے بھی زیادہ دیکھاہے اورانھوں ۔ نے اس کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے گہرا مشاہدہ رکھا ہے۔ سعود عثمانی نے کہا کہ میں اس کو محض سفرنامہ کہنے سے گریز کروں گا کیوں کہ یہ ایک الگ طرح کی دستاویز ہے جس میں سفرنامہ بھی ہے ،یاد داشتیں بھی ہیں اور اس سے بڑھ کربھی بہت کچھ ہے۔
تقریب کے روح رواں ممتاز فلسفی افسانہ نگار اور گلوکار صدر شعبۂ فلسفہ جامعہ پنجاب ڈاکٹرمحمد جواد نے اس کتاب کو ایک اورطرح کا سفرنامہ قراردیاور کہاکہ انھوںنے اس کتاب کے حوالے سے ایک مکمل مقالہ سپردقلم کیاہے جو جلدکسی رسالے میں شائع ہوجائے گا۔ انھوں نے میزبان کی حیثیت سے معزز مہمانوں اور طلبہ و طالبات کی اس بھرپور شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ صاحب کتاب ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی گفتگو مختصر، جامع اور بصیرت افروز تھی۔انھوں نے جہاں اس تقریب کے حسن انتظام پر شعبۂ فلسفہ سے اظہار تشکر کیا وہیں اپنے سفرنامے کی تخلیق کے جواز، دور قیام مصر کی یادداشتوں اور رئیس اردو اور پاکستان چئیر ،جامعہ ازہر کی حیثیت سے اپنی کوششوں کا ذکر کیا۔ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے بتایا کہ کس طرح اہل مصر قیام پاکستان کے جواز سے ناواقف ہیں۔اس ضمن میں انھوں نے پاکستانی ذمہ داران کی غفلت اور چشم پوشی پر افسوس کا اظہار کیا۔آپ نے قائد اعظم کے دورہ مصر کی اہمیت اور تفصیلات بیان کیں اور اس خیال کے ساتھ گفتگو کا اختتام کیا کہ اہل عرب میں مصر کی حیثیت دل جیسی ہے۔مصر میں جو تحریک اٹھتی ہے اس کے اثرات پوری عرب دنیا تک پہنچتے ہیں۔
دو گھنٹے کی اس یادگار تقریب میں شرکا نے اول تا آخر، بڑی دل چسپی کے ساتھ مقررین کو سنا۔اختتام پر مہمانوں اور شرکا کی ضیافت کے لیے چائے اور لوازمات کا پر تکلف اہتمام کیا گیا تھا۔شعبۂ فلسفہ کی تاریخ میں یہ تقریب یادگار کے طور پر زندہ رہے گی۔