Estb. 1882

University of the Punjab

News Archives

Press Release

تقریب بیادِ شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی
تقریب بیادِ شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی


شعبہ اردو، اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام، اورینٹل کالج لاہور میں ۲۲ جنوری ۰۲۰۲ء، بروز بدھ، شمس العلماء خواجہ الطاف حسین حالی کی یاد میں ایک یادگار تقریب ”شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ“ کے زیرِ عنوان منعقد ہوئی۔ تقریب میں طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ صدرِ شعبہ اردو، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر، ڈاکٹر عارفہ شہزاد، ڈاکٹر انیلا سلیم اور پرنسپل اورینٹل کالج ڈاکٹر سیّد قمر علی صاحب شریک تھے۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی ممتاز دانش ور، حالی شناس جناب بریگیڈئیر وحیدالزماں طارق تھے۔ تقریب کی صدارت نامور محقق، نقّاد، پروفیسر امریطس ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے فرمائی۔
تقریب کی نظامت کے فرائض سالِ اوّل کی طالبہ ظلِ ہما نے سر انجام دیے۔ تلاوتِ قرآنِ کریم کی سعادت محمد مرسلین (سالِ اوّل) نے حاصل کی۔ ہدیہ نعتِ سالِ اوّل کی طالبہ نیلم رزاق نے پیش کیا۔استقبالیہ کلمات پرنسپل اورینٹل کالج پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد قمر علی صاحب نے ادا کیے۔ انھوں نے شعبہ اردو کو تقریب کے انعقاد پر مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف کیا کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی جانب سے منعقدہ تقریبات نہ صرف علمی و ادبی حوالے سے مفید ہوتی ہیں بلکہ نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
استقبالیہ خطاب کے بعد سالِ اوّل کے طالب علم قاسم حیات اور محمد عثمان نے حالی کی تنقید پر تعارفی مضمون اورمسدّسِ حالی سے انتخاب پیش کیا۔ محمد عثمان کے بعد اردو ادب کے نامور نقّاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر صاحب نے حالی کی تنقید نگاری پر جامع گفتگو فرماتے ہوئے بتایا
مولانا حالی نے جس زمانے میں تنقید لکھنا شروع کی اس زمانے میں تنقید لکھنا نہایت مشکل تھا۔ تنقید نگار کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا…… جدیدیت قبول کرنا مولانا حالی اور سرسیّد کا ماڈرن اور منفرد نظریہ تھا جس نے آنے والی نسلوں پر مفید اور مثبت اثرات چھوڑے…… حالی کی تنقیدی زبان اور اسلوب سائنٹیفک ہے یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ حالی سائنٹیفک اردو تنقید کے بانی ہیں۔
صدرِ شعبہ اردو ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا
ادب زندگی اور تہذیبِ نفس کا نام ہے۔ انسانی کردار کا آئینہ ہے۔ مولانا حالی کی شخصیت گھریلو زندگی اور کردار اس حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے کہ خواجہ حالی نہ صرف خارج کے ادیب ہیں بلکہ داخل کے بھی ادیب ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ”حالی کی زندگی ایک شفیق، مہربان، رحم دل انسان کی زندگی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با عمل اور باکردار ادیب کی زندگی ہے۔ حالی گفتار ہی کے نہیں کردار کے بھی ادیب تھے…… حالی کے مطابق تنقید سے علم و ادب کا سفر آگے بڑھتا ہے جو ہم پر تنقید کرتے ہیں ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کے جواب میں بس اتنا کہا:
سب کچھ کیا انھوں نے پر ہم نے دم نہ مارا
صدرِ شعبہ اردو کے بعد نامور دانش ور، حالی شناس شخصیت بریگیڈئیر وحیدالزماں طارق نے موضوع پر جامع گفتگو فرماتے ہوئے کہا
سبک خراسانی کا عروج مرثیہ ہے اور مرثیے کا عروج مرثیہ دلّی، اور مرثیہ دلی بھی وہ جو الطاف حسین حالی نے لکھا……مولانا حالی اور مرزا غالب کے درمیاں نہ صرف استاد شاگرد کا رشتہ تھا بلکہ ایک دوسرے کے نقّاد اور دوست بھی تھے۔
آخر میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے موضوع پر بھرپور اور جامع گفتگو فرمائی…………انھوں نے حالی کے نقادوں پر تنقید کرتے ہوئے حالی کے کمالات سے نسلِ نو کو آگاہ کیا اور اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ حالی کو ہمارے نصابات کا حصہ بنانا چاہیے۔ تقریب کے اختتام پر مقررین کی خدمت میں پھول پیش کیے گئے۔