Estb. 1882

University of the Punjab

News Archives

Press Release

ادارہ زبان و ادبیات اردو میں نوبیل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا کے کلام کے اردو تراجم کے حوالے سے تقریب

ادارہ زبان و ادبیات اردو میں نوبیل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا کے کلام کے اردو تراجم کے حوالے سے تقریب


ادارہ زبان و ادبیات اردو پنجاب یونیورسٹی میں چلی کے نوبیل انعام یافتہ ہسپانوی شاعر پابلو نیرودا کے اردو شعری تراجم کے مجموعے "میرے منہ سے بولو" کی تقریبِ پذیرائی منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت معروف استاد، مورخ، نقاد اور جدید شاعر پروفیسر ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے کی۔ تقریب میں صاحب کتاب پروفیسرعبد القیوم صاحب کے ساتھ ساتھ شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی کی صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر نسیمہ رحمٰن اور ڈاکٹر الماس خانم اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ تقریب کی نظامت کے فرائض بی ایس ہفتم کے احمد نواز نے ادا کیے
تقریب کے آغاز میں تلاوت کلام مجید کی سعادت مدثر کے حصے میں آئی جبکہ نعت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نذرانہ سرفراز احمد نے پیش کیا۔ اس کے بعد بی ایس میقات سوم کے سید شیر محبوب علی نے کتاب سے ایک نظم "جنوبی ساحل" تحت اللفظ میں پڑھ کر سنائی جسے حاضرین نے پسند کیا۔ کتاب کی اہمیت اور مندرجات پہ طائرانہ نگاہ ڈاکٹر محمد نعیم نے ڈالی۔ انھوں نے مترجم کے تنقیدی شعور اور جدید اردو شاعری کے عمیق مطالعے کی تعریف کی۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ کتاب میں شامل رومانوی نظموں کے لیے باوزن شعری ہیئتیں استعمال کی گئی ہیں جبکہ نیرودا کی بعد کی شاعری کے تراجم کے لیے نثری نظم اور بلینک ورس کو استعمال کیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نیرودا محبت اور انقلاب کا شاعر ہے اور اصل میں دونوں ایک ہیں کہ محبت انسان کو بدلتی ہے جبکہ انقلاب تبدیلی کی تمنا سے پھوٹتا ہے۔ پروفیسر عبد القیوم نے اپنے ترجمے کے تجربات کے ساتھ ساتھ نیرودا کی عالمی شاعری میں اہمیت کو واضح کیا۔ انھوں نے نیرودا کے شعری ادوار کی وضاحت کی۔ اردو کے اہم شعرا پہ نیرودا کے اثرات کی وضاحت کے علاؤہ انھوں نے نیرودا پہ ٹیگور اور فیض کی شاعری کے اثرات کی نشاندہی بھی کی۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح ماچو پیچو پہ لکھی نظموں کے ذریعے پابلو نیرودا نے کولمبس سے پہلے کی تاریخ کو دریافت کیا اور پھر یہ نظمیں اپنی تخلیقی قوت اور تہذیبی و تاریخی رچاؤ کے سبب لاطینی امریکی ممالک میں اپنے تاریخی و تہذیبی وجود کی بازیافت کا ذریعہ بن گئیں۔ انھوں نے نیرودا کی عملی سیاسی زندگی کا جائزہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ ہر صاحب فکر کی طرح نیرودا بھی بہتر دنیا کا خواب دیکھتا تھا اور اس کی زندگی کا تخلیقی اور سیاسی سفر اسی جدوجہد سے عبارت ہے۔ صاحب صدر ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے لاہور میں اردو تراجم کی روایت سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ انھوں نے بیان کیا کہ لائٹنر نے میکبتھ اور ملکہ برطانیہ کے ترانے کے اردو تراجم کیے۔ اس کے علاؤہ جی سی یونیورسٹی لاہور میں 1870سے قبل انگریزی سے اردو تراجم کے نقوش کو پہلی بار سامنے لا کر اور مخزن میں شائع ہونے والے شعری و نثری تراجم کی طرف توجہ دلا کر انھوں نے اہلِ تحقیق کو چند نئے سوالات سے روشناس کیا۔ انھوں نے نیرودا کی اردو میں مقبولیت کے اسباب کی وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیرودا کی رومانوی لے، فطرت سے محبت اور انقلابی تصورات نے اسے اردو دنیا میں مقبول بنایا۔ اس کی شعری دنیا اہل اردو کو اپن سماجی و سیاسی حالات سے مشابہ لگی۔ پروفیسر عبد القیوم نے حاضرین کے مختلف دلچسپ سوالات کے جواب بھی دیے۔ تقریب میں شامل ادارہ زبان و ادبیات اردو اور جی سی یونیورسٹی کے اساتذہ، طلبہ و طالبات نے پابلو نیرودا کی نظموں کو خوب سراہا